خدادادذہانت کے آثار بچپن ہی میں نمایاں تھے ایسے کئی ایک واقعات پیش آۓ کہ آپ کی بے پناہ ذہانت وفطانت دیکھکر بڑے بڑے لوگ حیران رہ گئے صداقت دراست گفتاری نیک نفسی وپاکبازی،شرافت نفس اور اعلی ظرفی کے سبھی افراد خانہ اور اہل تعلق معترف اور مدّاح تھے،بڑوں کا ادب ، اساتذہ وعلماء مشائخ کرام کا احترام ان کے ساتھ حسن عقیدت اس جیسی ساری خوبیوں کے مالک تھے عام بچوں کے درمیان کھیل کود اور ہر طرح کے لہوولعب سے سخت اجتناب فرماتے اور اپنا قیمتی وقت اس طرح کے لغوکاموں سے محفوظ رکھتے۔یہی اوصاف خصائل تھے جن کی بناء پر آپ بچپن ہی میں اپنے والدین،اساتذہ اور بزرگ کے منظور نظر اور ہر ایک نگاہوں کے مرکزتوجہ بن گئے آپ نے تعلیم سے کبھی گریز نہیں کیا خود سے پڑھنے کے لئے برابر تشریف لے جایا کرتے تھے جمعہ کے دن بھی چاہا کہ پڑھنے جائیں مگر والد صاحب نے منع کیا تو آپ نے سمجھ لیا کہ جمعہ کی اہمیت کی وجہ اس روز تعلیم نہیں ہوتی
مولوی عرفان علی صاحب قادری رضوی بیسلپوری کا بیان ھے کہ ایک مرتبہ حضور اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا کہ میں اپنی مسجد کے سامنے کھڑا تھا ۔ اس وقت میری عمر ساڑھے تین سال کی ھوگی ، ایک صاحب اھل عرب کے لباس میں ملبوس جلوہ فرما ھوئے ۔ یہ معلوم ھوتا تھا کہ عربی ھیں ۔ انھوں نے مجھ سے عربی زبان میں گفتگو فرمائی ۔ میں نے فصیح عربی میں ان سے گفتگو کی ۔ اس بزرگ ھستی کو پہلے کبھی نہ دیکھا۔
جناب سید ایوب علی صاحب فرماتے ھیں کہ حضور اعلی حضرت کی عمر شریف تقریبا ۵/۶ سال ھوگی، اس وقت صرف ایک بڑا کرتا پہنے ھوئے باھر تشریف لائے کہ سامنے سے چند طوائف زنان زاری گزریں ۔ آپ نے فورا کرتے کا اگلا دامن دونوں ھاتھوں سے اٹھا کر چہرہ مبارک کو چھپا لیا ۔ یہ کیفیت دیکھ کر ان میں کی ایک طوائف بول اٹھی:"واہ صاحب منہ تو چھپا لیا اور ستر کھول دیا' تو آپ نے بر جستہ اسکو جواب دیا ؛" جب نظر بہکتی ھے تب دل بہکتا ھے جب دک بہکتاھے تو ستر بہکتا ھے"۔ یہ جواب سن کر وہ سکتہ کے عالم میں ھوگئی ۔
سید ایوب علی صاحب کا بیان ھے کہ ایک روز ایک مولوی صاحب حسب معمول بچوں کو پڑھا رھے تھے کہ ایک بچے نے سلام کیا ۔ مولوی صاحب نے جواب دیا ، جیتے رھو ۔ اس پر حضور اعلی حضرت نے عرض کیا : یہ تو سلام کا جواب نہ ھوا ، وعلیکم السلام کہنا چاھئے تھا ۔ مولوی صاحب سن کر بہت خوش ھوئے ، اور بہت دعائیں دیں ۔
تقریب روزہ کشائی:
سید ایوب علی صاحب کا بیان ھے کہ رمضان مبارک کا مقدس مہینہ ھے اور حضور اعلی حضرت کے پہلے روزہ کشائی کی تقریب ھے ۔ کاشائہ اقدس میں جہاں افطار کا اور بہت قسم کا سامان ھے ، ایک محفوظ کمرے میں فیرنی کے پیالے جمانے کے لئے چنے تھے ۔ آفتاب نصف النھار پر ھے ۔ ٹھیک تمازت کا وقت ھے کہ حضور کے والد ماجد آپ کو اسی کمرے میں لے جاتے ھیں اور کواڑوں کی جوڑیاں بند کر کے ایک پیاکہ اٹھا کر دیتے ھیں کہ اسے کھالو ۔ عرض کرتے ھیں کہ میرا توروضہ ھے، کیسے کھاؤنگا ؟ ارشاد ہوتاھے : بچوں کا روزہ ایسا ہی ھوتا ھے، لو کھالو ۔ میں نے کواڑ بند کر دۓ ھیں، کوئی دیکھنے والا بھی نھیں ھے ۔ آپ عرض کرتے ھیں : جس کے حکم سے روزہ رکھا ھے ، وہ تو دیکھ رھا ھے ۔ یہ سنتے ھی حضور کے والد کی چشمان مبارک سے اشکوں کا تار بندھ گیا، اور کمرہ کھول کر باھر لے آئے۔